گلوبل ویب سائٹ جامعۃ المدینہ میں خوش آمدید الحاق شدہ (کنزالمدارس بورڈ)

جامعۃ المدینہ کا کےبارہ دینی کام

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِيب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

افضل ترین شے

سرکارِ دوعالم ،نورِ مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محوِ گفتگو تھے کہ آپ پر وحی آئی کہ اس صحابی کی زندگی کی ایک ساعت (یعنی گھنٹہ بھر زندگی) باقی رہ گئی ہے ۔ یہ وقت عصر کا تھا ۔ رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم نے جب یہ بات اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتائی تو انہوں نے مضطرب ہوکر التجاء کی : ”یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم ! مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائے جو اس وقت میرے لئے سب سے بہتر ہو۔” تو آپ نے فرمایا : ”رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم ! مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائے جو اس وقت میرے لئے سب سے بہتر ہو ۔” چنانچہ وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم سیکھنے میں مشغول ہوگئے اور مغرب سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا ۔ راوی فرماتے ہیں کہ اگر علم سے افضل کوئی شے ہوتی تو رسولِ مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم اسی کا حکم ارشاد فرماتے۔ (تفسیر کبیر ، ج١،ص٤١٠)۔

 

عُلَماء کی شان میں 7 فرامین مصطفےٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم

عالم زمین میں اللہ عز وجل کی دلیل و حجت ہے تو جس نے عالم میں عیب نکالا وہ ہلاک ہوگیا۔

علم کے فیضان اور اِس سے محرومی کے نقصان کے بارے میں بُزرگانِ دین کے 4 فرامین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم

شیخ الْاِسلام، امام بُرہانُ الْاِسلام، ابراہیم زَرنُوجی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی تحریر فرماتے ہیں:”علم کو اس وجہ سے شرافت و عظمت حاصل ہے کہ علم ، تقویٰ تک پہنچنے کا وسیلہ ہے جس کے سبب بندہ اللہ عَزَّ

کروڑوں حَنَفِیّوں کے پیشوا حضرتِ سیّدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ اس بلند مقام پر کیسے پہنچے آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: ”میں نے (اپنے علم

کروڑوں حَنَفِیّوں کے پیشوا حضرتِ سیّدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ اس بلند مقام پر کیسے پہنچے آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: ”میں نے (اپنے علم سے)دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں بخل نہیں کیااور دوسروں سے اِسْتفَادَہ کرنے (سیکھنے )میں شرم نہیں کی۔“

سے)دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں بخل نہیں کیااور دوسروں سے اِسْتفَادَہ کرنے (سیکھنے )میں شرم نہیں کی۔“

وَجَلَّ کے حضور بزرگی اور ابدی سعادت کا مستحق ہوجاتا ہے۔“

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عُلمائے کرام رحمہم اللہ ُ السلام وارثِ انبیاء ہیں کیونکہ یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی مِیراث یعنی علمِ دین کو حاصل کرتے اور اس کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے آج کل شاید کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امت محبوب صَلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو علمائے کرام رحمہم اللہ ُ السلام سے دور کیا جارہا ہے، ان کے مقام و مرتبے کو مُسلمانوں کے دل و دماغ سے نکالا جارہا ہے، ان کی شان میں لَب کشائی کی جارہی ہے، ان پر اعتراض اور طعن و تنقید کرنے پر ابھارا جارہا ہے بلکہ اب تو معاذ اللہ عز وجل علماءکی توہین و تحقیر تک نوبت آپہنچی ہے جو کہ ایمان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔ یوں بھی جو علمائے کرام رحمہم اللہ ُ السلام کا گستاخ ہوگا وہ ان کی صحبت و فیض سے محروم ہوجائے گا اور جب یہ دونوں چیزیں نصیب نہ ہونگی تو شرعی رہنمائی حاصل ہونا بھی ناممکن ،لہٰذا بے عملیاں کرتے کرتے ایسوں کا کُفر تک جا پڑنا بھی عین ممکن ہے۔

اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ”جاہل   ِبوجہ جہل اپنی عبادت میں سو گُناہ کرلیتا ہے اور مصیبت یہ کہ انہیں گُناہ بھی نہیں جانتا اور عالم ِ دین اپنے گُناہ میں وہ حصہ خوف و ندامت کا رکھتا ہے کہ (اللہ عَزَّ وَجَلَّ )اسےجلد نجات بخشتا ہے۔“